google.com, pub-7372427749607278, DIRECT, f08c47fec0942fa0 URDU QAWAID CLASS 9TH NJABHS: روز مرہ، محاورہ، کہاوت یا ضرب المثل میں کیا فرق پایا جاتا ہے؟

Saturday, December 25, 2021

روز مرہ، محاورہ، کہاوت یا ضرب المثل میں کیا فرق پایا جاتا ہے؟

علم البدیع کی اقسام

روز مرہ، محاورہ، کہاوت یا ضرب المثل میں کیا فرق پایا جاتا ہے؟

روزمرہ کی تعریف:

دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہو، روزمرہ کہلاتا ہے۔ مثلاً، وہ آئے دن سکول سے غیر حاضر رہتا ہے۔ اس جملے میں ’’آئے دن‘‘ درست روزمرہ ہے، جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق ہے۔ اگر اسے ’’آئے روز‘‘ لکھا جائے، تو یہ اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق نہیں ہے۔ اس لیے یہ روزمرہ غلط ہے۔ اگر چہ اس طرح لکھنے سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس طرح ’’روز بروز مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔‘‘ اس جملے میں ’’روز بروز‘‘ درست روز مرہ ہے۔ کیوں کہ اہلِ زباں ’’دن بدن‘‘ نہیں بولتے، یعنی ’’روز اور دن‘‘ اگر چہ ہم معنی ہیں لیکن ’’آئے‘‘ کے ساتھ ’’روز‘‘ کا استعمال درست نہیں۔ کیوں کہ اہلِ زباں ’’آئے دن‘‘ بولتے ہیں.

محاورہ کی تعریف:

 دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہو۔ مثلاً، ’’سر پر چڑھنا‘‘ کے حقیقی معنی ’’سر کے اوپر چڑھنا‘‘ ہیں جب کہ مجازی معنوں میں اس سے مراد ’’گستاخ‘‘ یا ’’بدتمیز‘‘ ہے۔

یہاں یاد رہے کہ مجازی معنوں سے مراد ۔۔۔ لفظ کے غیر حقیقی یا مرادی معنی ہیں۔

روزمرہ اور محاورے میں فرق:

پہلا فرق:۔ روزمرہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جب کہ محاورہ مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ مثلاً، آنکھوں سے ’’اُترنا‘‘ محاورہ ہے اور ’’چھت سے اُترنا‘‘ روزمرہ ہے۔

دوسرا فرق:۔ محاورہ، قواعد کی حدود میں آتا ہے جب کہ روزمرہ، قواعد سے بالاتر ہوتا ہے۔

تیسرا فرق:۔ محاورہ میں اہلِ زباں بھی تبدیلی نہیں کرسکتے جب کہ روزمرہ اہلِ زباں کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔

چوتھا فرق:۔ محاورے میں ایک اسم اور ایک فعل کا ہونا ضروری ہے جب کہ روزمرہ میں یہ شرط نہیں ہے۔

 ٭ محاورے کے لیے شرائط:

 محاورے کے لیے چند اہم شرائط حسبِ ذیل ہیں:

شرط نمبر 1:۔ محاورہ کم از کم دو الفاظ کا مجموعہ ہو، کیوں کہ ایک لفظ محاورہ نہیں ہوسکتا۔

2:۔ یہ مجموعہ مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں مستعمل ہو۔

3:۔ اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق ہو۔

4:۔ محاورے میں ایک اسم اور ایک فعل کا ہونا ضروری ہے۔ صرف اسما اور صرف افعال محاورہ نہیں بن سکتے۔

5:۔ محاورہ قواعد کی حدود میں ہوتا ہے، قواعد سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔

6:۔ محاورے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، یہاں تک کہ اہلِ زباں بھی اس میں تبدیلی نہیں کرسکتے۔

7:۔ محاورہ قیاسی نہ ہو۔ مثلاً ’’نو دو گیارہ ہونا‘‘ ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے غائب ہونا۔ اگر اس پر قیاس کرکے کہا جائے کہ واقعی ’’نو اور دو‘‘ جمع کرنے سے ’’گیارہ‘‘ کی عدد بنتی ہے، تو اس کی جگہ دو ہندسے مثلاً ’’پانچ چھے ہونا‘‘ یا ’’آٹھ تین ہونا‘‘ کہنا غلط ہے۔ کیوں کہ یہ محاورہ نہیں ہے۔ یا آنکھیں پھٹنا کا مطلب ہے ’’حیران ہونا‘‘ یا ’’مغرور ہونا‘‘۔ اگر اس کی جگہ کہا جائے: چشمیں یا نگاہیں پھٹنا، تو غلط ہوگا۔ وغیرہ

 کہاوت یا ضرب المثل:

کسی واقعے یا قصے وغیرہ کا نتیجہ جو لگے بندھے الفاظ میں بطور مثال بیان کیا جائے کہاوت یا ضرب المثل کہلاتا ہے۔

ہر وہ فقرہ یا مصرعہ  کہاوت بن جاتا ہے جو بطور نظیر زبان زد عام اور مشہور ہوجائے۔ جیسے “سانپ بھی مرجائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے 

No comments:

Post a Comment

آپ کی رائے کا شکریہ۔

Note: Only a member of this blog may post a comment.