google.com, pub-7372427749607278, DIRECT, f08c47fec0942fa0 URDU QAWAID CLASS 9TH NJABHS

Wednesday, December 7, 2022

جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ میں کیا فرق ہے؟

جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ میں کیا فرق ہے؟

دو یا دو سے زیادہ بامعنی الفاظ کے مجموعے کو مرکب تام یا کلام یا جملہ کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مرکب تام یا کلام  یا جملہ وہ مرکب ہوتا ہے جسے پڑھ کر پورا مطلب  پڑھنے والے کی سمجھ میں آجائے۔  جیسے علی نیک ہے، اسلم دوڑتا ہے، مینارِ پاکستان لاہور میں ہے۔

جملہ اسمیہ:

 جملہ اسمیہ اُس جملہ کو کہتے ہیں جس میں مُسنَد اور مُسنَد اَلیہ دونوں اسم ہوں اور جس کے آخر میں فعل ناقص آئے۔ جیسے:  عدنان ذہین لڑکا ہے۔ (اس جملے میں۔۔۔ "عدنان"  اسم معرفہ،" ذہین " اسم صفت اور "لڑکا  "اسم نکرہ ہیں اور "ہے" فعل ناقص ہے۔

جملہ فعلیہ:

جملہ فعلیہ اس جملہ کو کہتے ہیں جس میں مُسنَد اَلیہ اسم ہو اور مُسنَد فعل ہو۔

 جملہ فعلیہ میں فعل ناقص کی بجائے فعل تام آتا ہے جس سے کام کا تصور واضح ہوجاتا ہے۔

مثالیں:  احمد آیا، کریم نے سبق پڑھا، علی لاہور جاتا ہے  ۔۔۔وغیرہ۔

1۔مُسند کا مفہوم:کسی شخص یا چیز کے بارے میں جو کچھ بھی بتایا جائے اسے اردو قواعد کی زبان میں مُسند کہتے کہتے ہیں۔ مثلاً

عدنان ذہین لڑکا ہے۔ ۔ اس جملے  میں مُسند ذہین ہے۔

کریم نے سبق پڑھا۔۔۔ اس جملے  میں مُسند" سبق پڑھنا" ہے۔

2۔ مسند الیہ کا مفہوم:جس چیز یا شخص کی بابت جو کچھ کہا جائے اردو قواعد کی زبان میں اسے مُسند الیہ کہتے ہیں۔ مثلاً

عدنان ذہین لڑکا ہے۔ ۔ اس جملے  میں مُسنداِلیہ عدنان ہے۔

کریم نے سبق پڑھا۔۔۔ اس جملے  میں مُسنداِلیہ  کریم ہے ۔


Saturday, June 11, 2022

تشبیہ اور استعارہ کسے کہتے ہیں؟

 

تشبیہ اور استعارہ میں فرق۔۔۔۔

تشبیہ :

تشبیہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی مشابہت،  مماثلت یا کسی چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینا ہے۔ علم بیان کے مطابق جب کسی چیز کو اُ س کی مشترکہ خصوصیت کی بنا پر دوسری چیز کی طرح قرار دیا جائے تشبیہ کہلاتا ہے۔۔۔

مثال: میرا بھائی شیر کی طرح بہادر ہے۔

شعری مثال: 

استعارہ:

لغت میں استعارہ کے معنی ’عارضی طور پر مانگ لینا، مُستعار لینا یا اُدھار مانگناہیں۔

علم بیان کی اصطلاح میں جب کسی چیز کو اُس کی مشترکہ خصوصیات کی بنا پر  ہو بہو دوسری  چیز قرار دے دیا جائے، اور اس دوسری شے کے لوازمات پہلی شے سے منسوب کر دئیے جائیں، اسے استعارہ کہتے ہیں۔ استعارہ مجاز کی ایک قسم ہےجس میں ایک لفظ کو معنوی مناسبت کی وجہ سے دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی لفظ کو مختلف معنی میں استعمال کرنے کے لیے ادھار لینا۔ استعارہ میں حقیقی اور مجازی معنی میں تشبیہ کا تعلق پایا جاتا ہے، لیکن اس میں حرف تشبیہ موجود نہیں ہوتا۔

 

تشبیہ

استعارہ

۱۔ تشبیہ حقیقی ہوتی ہے۔

استعارہ مجازی ہوتا ہے۔

۲۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ کا ذکر ہوتا ہے۔

استعارہ میں مشبہ بہ کو مشبہ بنا لیا جاتا ہے۔

۳۔ تشبیہ میں حروف تشبیہ کے ذریعے ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دیا جاتا ہے۔

جبکہ استعارہ میں وہ ہی چیز بنا دیا جاتا ہے۔

۴۔ تشبیہ کے ارکان پانچ ہیں۔

استعارہ کے ارکان تین ہیں۔

۵۔ تشبیہ علم بیان کی ابتدائی شکل ہے۔

استعارہ اس علم کی ایک بلیغ صورت ہے۔

۶۔ تشبیہ کی بنیاد حقیقت پر ہوتی ہے۔

استعارہ کی بنیاد خیال پر ہوتی ہے۔

 


Saturday, December 25, 2021

روز مرہ، محاورہ، کہاوت یا ضرب المثل میں کیا فرق پایا جاتا ہے؟

علم البدیع کی اقسام

روز مرہ، محاورہ، کہاوت یا ضرب المثل میں کیا فرق پایا جاتا ہے؟

روزمرہ کی تعریف:

دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہو، روزمرہ کہلاتا ہے۔ مثلاً، وہ آئے دن سکول سے غیر حاضر رہتا ہے۔ اس جملے میں ’’آئے دن‘‘ درست روزمرہ ہے، جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق ہے۔ اگر اسے ’’آئے روز‘‘ لکھا جائے، تو یہ اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق نہیں ہے۔ اس لیے یہ روزمرہ غلط ہے۔ اگر چہ اس طرح لکھنے سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس طرح ’’روز بروز مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔‘‘ اس جملے میں ’’روز بروز‘‘ درست روز مرہ ہے۔ کیوں کہ اہلِ زباں ’’دن بدن‘‘ نہیں بولتے، یعنی ’’روز اور دن‘‘ اگر چہ ہم معنی ہیں لیکن ’’آئے‘‘ کے ساتھ ’’روز‘‘ کا استعمال درست نہیں۔ کیوں کہ اہلِ زباں ’’آئے دن‘‘ بولتے ہیں.

محاورہ کی تعریف:

 دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہو۔ مثلاً، ’’سر پر چڑھنا‘‘ کے حقیقی معنی ’’سر کے اوپر چڑھنا‘‘ ہیں جب کہ مجازی معنوں میں اس سے مراد ’’گستاخ‘‘ یا ’’بدتمیز‘‘ ہے۔

یہاں یاد رہے کہ مجازی معنوں سے مراد ۔۔۔ لفظ کے غیر حقیقی یا مرادی معنی ہیں۔

روزمرہ اور محاورے میں فرق:

پہلا فرق:۔ روزمرہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جب کہ محاورہ مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ مثلاً، آنکھوں سے ’’اُترنا‘‘ محاورہ ہے اور ’’چھت سے اُترنا‘‘ روزمرہ ہے۔

دوسرا فرق:۔ محاورہ، قواعد کی حدود میں آتا ہے جب کہ روزمرہ، قواعد سے بالاتر ہوتا ہے۔

تیسرا فرق:۔ محاورہ میں اہلِ زباں بھی تبدیلی نہیں کرسکتے جب کہ روزمرہ اہلِ زباں کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔

چوتھا فرق:۔ محاورے میں ایک اسم اور ایک فعل کا ہونا ضروری ہے جب کہ روزمرہ میں یہ شرط نہیں ہے۔

 ٭ محاورے کے لیے شرائط:

 محاورے کے لیے چند اہم شرائط حسبِ ذیل ہیں:

شرط نمبر 1:۔ محاورہ کم از کم دو الفاظ کا مجموعہ ہو، کیوں کہ ایک لفظ محاورہ نہیں ہوسکتا۔

2:۔ یہ مجموعہ مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں مستعمل ہو۔

3:۔ اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق ہو۔

4:۔ محاورے میں ایک اسم اور ایک فعل کا ہونا ضروری ہے۔ صرف اسما اور صرف افعال محاورہ نہیں بن سکتے۔

5:۔ محاورہ قواعد کی حدود میں ہوتا ہے، قواعد سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔

6:۔ محاورے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، یہاں تک کہ اہلِ زباں بھی اس میں تبدیلی نہیں کرسکتے۔

7:۔ محاورہ قیاسی نہ ہو۔ مثلاً ’’نو دو گیارہ ہونا‘‘ ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے غائب ہونا۔ اگر اس پر قیاس کرکے کہا جائے کہ واقعی ’’نو اور دو‘‘ جمع کرنے سے ’’گیارہ‘‘ کی عدد بنتی ہے، تو اس کی جگہ دو ہندسے مثلاً ’’پانچ چھے ہونا‘‘ یا ’’آٹھ تین ہونا‘‘ کہنا غلط ہے۔ کیوں کہ یہ محاورہ نہیں ہے۔ یا آنکھیں پھٹنا کا مطلب ہے ’’حیران ہونا‘‘ یا ’’مغرور ہونا‘‘۔ اگر اس کی جگہ کہا جائے: چشمیں یا نگاہیں پھٹنا، تو غلط ہوگا۔ وغیرہ

 کہاوت یا ضرب المثل:

کسی واقعے یا قصے وغیرہ کا نتیجہ جو لگے بندھے الفاظ میں بطور مثال بیان کیا جائے کہاوت یا ضرب المثل کہلاتا ہے۔

ہر وہ فقرہ یا مصرعہ  کہاوت بن جاتا ہے جو بطور نظیر زبان زد عام اور مشہور ہوجائے۔ جیسے “سانپ بھی مرجائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے 

Wednesday, October 10, 2018

اردو قواعد مطلع اور مقطع میں فرق


مطلع      اور مقطع کا  مختصر تعارف


مطلع: 

مطلع لفظ کے معنی ہیں اطلاع دینا۔ شعری اصطلاح میں غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے۔ عام طور پر مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔  مثلاً ذیل میں دیا گیا شعر میر تقی میر  کی غزل کا  مطلع ہے۔

فقیرانہ  آئے  صدا  کر  چلے

میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

مقطع:

مقطع  لفظ کے معنی ہیں ختم کرنا ،  بات  کاٹنا۔ شعری اصطلاح میں غزل کے آخری شعر کو مقطع  کہا جاتا ہے۔ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے۔  مثلاً ذیل میں دیا گیا شعر بہادر شاہ ظفؔر کی غزل کا مقطع ہے۔

اب نہ دیجیے ظفرؔ کسی کو دل 

کہ جسے دیکھا بے وفا دیکھا

Monday, September 24, 2018

اردو قواعد حصہ صرف

اردو قواعد برائے جماعت نہم

صَرف و نَحو

ہر زبان کے لئے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں، جن سے اس زبان کو صحیح طور سے سیکھا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زبان کی درستی اور اس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئے ان قوانین پر عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے۔

 اردو زبان کے بھی کچھ اصول ہیں، جنہیں قواعد یا گرامر کہا جاتا ہے۔ ان کے جاننے سے اردو زبان کو ٹھیک طریقے سے بولا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں قواعد کو Grammar کہتے ہیں۔ قواعد یا گرامر، لسانیات کی ایک اہم شاخ ہے، اور اس کا مطالعہ زبان پہ دسترس حاصل کرنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ یہ مضمون اردو زبان کے قواعد کے متعلق ہے۔

اردو زبان کے قواعد کے دو حصے ہیں۔

(1)         حصہ صَرف      (2)  حصہ نَحو

حصہ صَرف: صرف، قواعد کا وہ حصہ ہے جس میں جملوں اور مرکبات کے بجائے، فقط الفاظ کے بارے میں بحث کی جاتی ہے.اُن کی ساخت، بناوٹ اور معانى کی وضاحت کی جاتی ہے اور صرف الفاظ کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔

لفظ:

انسان اپنے منہ سے جو کچھ کہتا ہے اس کی بنیادی اکائی لفظ ہوتی ہے۔ word اسے انگریزی میں  کہتے ہیں۔

لفظِ موضوع:

جس لفظ یا الفاظ کے مجموعے کے کچھ معنى ہوں، اسے لفظ موضوع کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، کوئی بھی با معنى لفظ یا  الفاظ کا مجموعہ لفظ   موضوع ہوتا ہے۔ اسے انگریزی میں (meaningful words)  کہا جا سکتا ہے۔

اس کی دو اقسام ہیں، کلمہ اور کلام۔ کلمے کی بحث حصۂ صرف میں آتی ہے، جبکہ کلام کی بحث حصۂ نحو میں آتی ہے۔

کلمہ:

وہ اکیلا لفظ جس کے کچھ معنى ہوں، کلمہ کہلاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، کوئی بھی اکیلا با معنى لفظ , کلمہ ہوتا ہے؛ جیسے  مسجد ، کیا، کرنا  ان مثالوں میں تینوں خط کشیدہ الفاظ کلمے ہیں۔ انگریزی میں اسے Meaningful word کہا جا سکتا ہے۔

اسم:

اسم وہ کلمہ ہے جو کسی شخص، جگہ، چیز، یا کیفیت کے لئے استعمال کیا جائے؛ جیسے

الله سب سے بڑا ہے۔  وہ میرا دوست تھا۔  شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔

ان جملوں میں خط کشیدہ الفاظ (کلمے) اسماء ہیں۔ انگریزی میں اسے    nominal کہتے ہیں ۔

معنوں کے لحاظ سے اسم کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:

1-  اسم ذات                 2-  اسم صفت

اسم ذات  : وہ اسم کسی وجود اور حقیقت کو ظاہر کرے،   جیسے علی ، کتاب، دیوار

  اسم صفت:  وہ  اسم ہے جو کسی اسم کی اچھی یا بُری حالت کو ظاہر کرے۔  جیسے نیک لڑکی،   تیز گاڑی۔ اس میں "نیک"  اور "تیز " اسمِ صفت ہیں۔

اسم کی استعمال کے لحاظ سے دو اقسام ہیں۔    *اسم  معرفہ    * اسم نکرہ

 اسم معرفہ کی مزید چار اقسام ہیں۔

1- اسمِ علم            2-     اسمِ ضمیر         3 -    اسمِ اشارہ        4- اسم موصول

فعل:

وہ کلمہ جس کے معنی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ پایا جاتا ہو فعل کہلاتا ہے اسے انگریزی میں "Verb" کہتے ہیں۔

 فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔

1.    فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گذرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ مثلاً  "علی نے کل سبق یاد کیا تھا۔"

2.    فعل حال وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ مثلاً "علی نے کتاب پڑھی ہے۔"

3.    فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔ مثلاً "علی کل  اسکول جائے گا۔"

 

حرف:

حرف اس لفظ کو کہتے ہیں جو تنہا اپنے پورے معانی نہ دے بلکہ اسموں، فعلوں یا دو جملوں کے ساتھ مل کر اپنے پورے معنی ظاہر کرے۔ حرف کے کام دو اسموں کو ملانا دو فعلوں کو ملانا، دو چھوٹے جملوں کو ملا کر ایک جملہ بنانا، اسموں اور فعلوں کا ایک دوسرے سے تعلق ظاہر کرنا ہے۔ استعمال کے لحاظ سے حروف کو چار بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

1۔ وہ حروف جو اسموں اور فعلوں کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً کا، کے، کی، کو وغیرہ

2۔ وہ حروف جو تخصیص کا کام دیتے ہیں۔ مثلاً ہی، ہر، ایک، صرف، فقط، بس وغیرہ

3۔ وہ حرف جو دو اسموں، دو فعلوں اور جملوں کو ملاتے ہیں۔ مثلاً اور، پھر، کہ وغیرہ ۔

4۔ وہ حروف جو جملوں کو ملاتے ہیں مثلاً ارے، ہاں اور ہائے، اف، اخاہ، تف، الامان وغیرہ۔

یا

حرف اس کلمہ کو کہتے ہیں جو نہ کسی چیز کا نام ہو، نہ کسی شخص کا نام ہو، نہ کسی جگہ کا نام ہو، نہ اس سے کوئی کام ظاہرہو اور نہ ہی یہ الگ سے اپنا کوئی معنی رکھتا ہو بلکہ یہ مختلف اسموں اور فعلوں کو آاپس میں ملانے کا کام دیتا ہو۔ جیسے اسلم اور تنویر آئے میں ”اور“ حرف ہے جو دو اسموں کو آپس میں ملا رہا ہے۔ اسی طرح منیر مسجد تک گیا کے جملے میں ”تک“ حرف ہے جو ایک اسم کو فعل سے ملا رہا ہے۔

حروف کی درج ذیل اقسام ہیں۔

1۔ حروف جار

حروف جار وہ حروف ہوتے ہیں جو کسی اسم کو فعل کے ساتھ ملاتے ہیں۔ جیسے کاغذ اور پنسل میز پر رکھ دو اس جملے میں ”پر“ حرف جار ہے، اردو کے حروف جار:۔۔۔۔اردو کے مشہور حروف جار مندرجہ ذیل ہیں۔

کا، کے، کی، کو، تک، پر، سے، تلک، اوپر، نیچے، پہ، درمیان ساتھ، اندر باہر وغیرہ

2۔ حروف عطف

حروف عطف وہ حروف ہوتے ہیں جو دو اسموں یا دو جملوں کو آپس میں ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے قلم اور دوات میز پر رکھ دو، حنا کھانا کھا کر اسکول گئی۔ ان جملوں میں ”اور“ اور ”کر“ حروف عطف ہیں۔

اردو کے حروف عطف:۔۔۔۔اور، و، نیز، پھر، بھی وغیرہ حروف عطف ہیں۔

3۔ حروف شرط

حروف شرط وہ حروف ہوتے ہیں جو شرط کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلا اگر وہ تیز چلتا تو وقت پر پہنچ جاتا اس جملے میں ”اگر“ حرف شرط ہے۔ اردو کے حروف شرط مندرجہ ذیل ہیں۔

اگرچہ، اگر، گر۔ جوں جوں، جوں ہی، جب، جب تک، تاوقتیکہ وغیرہ

4۔ حروف ندا

ایسے حروف جو کسی اسم کو پکارنے کے لیے استعمال ہوں ن حروف ندا کہلاتے ہیں۔ جیسے ارے بھائی! جب تک محنت نہیں کرو گے کامیاب نہیں ہوسکو گے۔ اس جملے میں ”ارے“ حرف ندا ہے۔اردو کے حروف ندا مندرجہ ذیل ہیں۔

ارے، ابے، او، اجی وغیرہ

5۔ حروف تاسف

حروف تاسف وہ حروف ہوتے ہیں جو افسوس اور تاسف کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً افسوس انسان غفلت کا شکار ہو گیاہے اس جملے میں افسوس حرف تاسف ہے۔ اردو کے حروف تاسف:۔۔۔۔۔افسوس، صد افسوس، ہائے، ہائے، ہائے، وائے، اُف، افوہ، حسرتا، واحسراتا وغیرہ

6۔ حروف تشبیہ

ایسے حروف جو ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینے کے لیے استعمال ہوں حروف تشبیہ کہلاتے ہیں جیسے شیر کی مانند بہادر، موتی جیسے دانت، برف کی طرح ٹھنڈا اِن جملوں میں مانند، جیسے، طرح حروف تشبیہ ہیں۔

اردو کے حروف تشبیہ:۔۔۔مثل، مانند، طرح، جیسا، سا، جوں، ہوبہو، عین بین، بعینہ وغیرہ

7۔ حروف اضافت

حروف اضافت وہ حروف ہوتے ہیں جو صرف اسموں کے باہمی تعلق یا لگاؤکو ظاہر کرتے ہیں۔ مضاف، مضاف الیہ اور حرف اضافت کے ملنے سے مرکب اضافی بنتا ہے۔ مثلاً اسلم کا بھائی، حنا کی کتاب، باغ کے پھول وغیرہ اِن جملوں میں کا، کی، کے حروف اضافت ہیں۔

8۔ حروف استفہام

حروف استفہام اُن حروف کو کہتے ہیں جو کچھ پوچھنے یا سوال کرنے کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً احمد تم کب بازار جاؤ گے؟ اس جملے میں کب حرف استفہام ہے۔ اس جملے میں" کب" حرف استفہام ہے۔

اردو کے حروف استفہام :۔۔۔۔کیا، کب، کون، کیوں، کہاں، کس کا، کس کو، کس کے، کیسا، کیسے، کیسی، کتنا، کتنی، کتنے، کیونکہ، کس لیے، وغیرہ۔

9۔ حروف تحسین

حروف تحسین وہ حروف ہوتے ہیں جو کسی چیز کی تعریف کے موقع پر بولے جاتے ہیں جیسے سبحان اللہ! کتنا پیارا موسم ہے۔ اس جملے میں سبحان اللہ حرف تحسین ہے۔اردو کے حروف تحسین:۔۔۔۔مرحبا، سبحان اللہ، شاباش، آفرین، خوب، بہت خوب، بہت اچھا، واہ واہ، اللہ اللہ، ماشاءاللہ، جزاک اللہ، آہا، وغیرہ حروف تحسین ہیں۔ اِن حروف کو حروف انبساط بھی کہتے ہیں انبساط کے معنی خوشی یا مسرت کے ہیں۔

10۔ حروف نفرین

حروف نفرین ایسے حروف ہوتے ہیں جو نفرت یا ملامت کے لیے بولے جاتے ہیں جیسے جھوٹوں پر اللہ کی ہزار لعنت اس جملے میں ہزار "لعنت" حرف نفرین ہے۔

اردو کے حروف نفرین:۔۔۔ لعنت، ہزار لعنت، تف، پھٹکار ہے، اخ تھو، چھی چھی وغیرہ حروف نفرین ہیں۔

 

11۔ حروف علت

یہ حروف ہیں جو کسی وجہ یا سبب کو ظاہر کریں جیسے کیونکہ، اس لیے، بریں سبب، بنا بریں، لہذا، پس، تاکہ، بایں وجہ، چونکہ، چنانچہ وغیرہ

12۔ حروف بیان ایسے حروف جو کسی وضاحت کے لیے استعمال کیے جائیں حروف بیان کہلاتے ہیں جیسے استاد نے شاگرد سے کہا کہ سبق پڑھو اس جملے میں" کہ" حرف بیان ہے۔